پاکستان میں تاریخِ  آمریّت کی تطبیق 

ساخت وبلاگ

پاکستان اور تاریخِ آمریّت

علم کا فائدہ تطبیق کرنے میں ہے۔آسان الفاظ میں انسان جس چیز کا علم رکھتا ہو اُسے پہچانتا بھی ہو۔ مثلا اگر کسی کو معلوم ہو کہ آگ جلاتی ہے لیکن اُسے آگ کی پہچان نہ ہو تو اُس کا جب بھی آگ سے سامنا ہوگا وہ علم کے باوجود آگ کو نہیں پہچان سکے گا اور جب نہیں پہچان سکے گا تو آگ اُسے نقصان دے گی۔ علمِ تاریخ کا فائدہ بھی تبھی ہے جب ہم تاریخی کرداروں کو اپنے زمانے میں پہچانیں۔ اگر ہم اُن کرداروں کا علم تو رکھتے ہوں لیکن اُن کی پہچان سے عاری ہوں تو وہی کردار آج بھی ہمیں نقصان پہنچائیں گے۔ محترم رائے یوسف رضا دھنیالہ نے تاریخِ اسلام کے کرداروں کو تاریخ پاکستان میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اس کوشش میں وہ کہاں تک کامیاب رہے۔

ادارہ


پاکستان میں تاریخِ آمریّت کی تطبیق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
✍️ رائے یوسف رضا دھنیالہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


پاکستان ایک ایسا مُلک ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ کسی جرنیل نے فوجوں کی یلغار یا عسکری جہاد کر کے چھینے ہوئے کسی جغرافیے پہ نہیں بنایا تھا بلکہ برطانوی ہند کے مسلمان سیاستدانوں نے برسوں کی سیاسی جدوجہد اور برطانوی سامراج کے ساتھ مُذاکرات کر کے 1946ء کے اِنتخابات میں عوام کی حمایت اور ووٹ کی طاقت سے ایک مکمل جمہوری طریقے سے حاصل کیا تھا جو اپنے وقت کا تب سب سے بڑا اسلامی ملک تھا جس کے دو بازو تھے۔ ایک حصے کو مغربی پاکستان کہا گیا جبکہ دوسرے حصے کو مشرقی پاکستان۔
پاکستان بنانے والی سیاسی جماعت "آل انڈیا مُسلم لیگ" کی بُنیاد جس خِطے میں رکھی گئی، وہی مشرقی بنگال پاکستان کا مشرقی بازو بھی بنا، اور وہی پاکستانی اکثریت کا علاقہ بھی تھا۔ تاہم بنگال کے پاکستانیوں کی اکثریت متوسط اور مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والی سیاسی بیداری کے لحاظ سے بڑی متحرک آبادی تھی جبکہ اس کے برعکس مغربی پاکستان پہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں، نوابوں، سرداروں، قبائلی ذہنیت کے سرکردہ سربراہوں، سرکاری ملازموں، افسرشاہی اور انگریز کے نوازے ہوئے خاندانوں کا یہاں کے سماج، سیاست، قُدرتی وسائل اور زمینوں پر قبضہ اِس قدر شدید تھا کہ کُل آبادی کا محض دو فیصد طبقہ ہونے کے باوجود یہ لوگ مغربی پاکستان میں آباد اٹھانوے فیصد عوام پہ سماجی، سیاسی، سرکاری اور مالی برتری رکھتے تھے۔اور یُوں پاکستان کے دونوں حصوں کے عوام کی سیاسی و سماجی اور معاشی و ذہنی حالت میں نمایا فرق تھا۔
بنگالی مڈل کلاس مگر سیاست میں متحرک تھے جبکہ ہم اشرافیہ پرست، وڈیروں کے ذہنی غلام اور مُقلّد تھے، اور بدستور ہیں۔

جیسے ریاستِ مدینہ پہ پیغمبرِ اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد انصار کے بجائے حُکمرانی کا حق مکہ والوں کا تسلیم کر لیا گیا تھا، ویسے ہی مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے شروع سے ہی متحدہ پاکستان پہ اپنا اختیار اس قدر پُختہ کر لیا تھا کہ مشرقی پاکستان سے کم آبادی ہونے کے باوجود سیاسی بالادستی اور اِقتدار پہ گرفت مغربی پاکستان میں مُقیم اشرافیہ نے مضبوط کر لی۔ یہی کشمکشِ آگے چل کر دونوں حصوں کی علیحدگی کا سبب بھی بنی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اسکندر مرزا کا مارشل لاء:

سکندر مرزا جو کہ 1757ء کی جنگ میں اپنی مادرِ وطن اور بنگال کے نواب سراجُ الدّولہ کے ساتھ غداری کر کے انگریز کا ساتھ دینے والے مِیر جعفر کا پڑپوتا تھا، برطانوی ہند میں انگریز کی ہندوستانی فوج میں بطورِ افسر بھرتی ہوا لیکن بعد ازاں فوج سے سِوّل سروس میں آکر بیوروکریٹ بن گیا اور پاکستان بننے کے بعد، کرتے کرتے پہلے مشرقی پاکستان کا گورنر جبکہ بعد ازاں گورنر جنرل پاکستان غلام محمد کو معزول کر کے اُس کی جگہ خود متحدہ پاکستان کا گورنر جنرل بن گیا۔
بعد میں پاکستان کے پہلے آئین کے تحت وہ پاکستان کا پہلا صدر بن بیٹھا اور بالآخر سات اور آٹھ اکتوبر، 1958ء کو اُس نے سیاسی حالات کو بُنیاد بنا کر پاکستان کا 1956ء کا آئین منسوخ کر کے پاکستان میں پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا جس کا انچارج اُس نے باوردی جنرل ایوب خان کو مقرر کیا۔
جنرل ایوب خان نے تین ہفتوں بعد ہی خود سکندر مرزا کی ہی چھُٹی کروا دی اور ساری کی ساری اسلامی جمہوری ریاست اپنے فوجی پنجوں میں دبوچ لی اور یُوں پاکستان میں باضابط طور پر باوردی آمر نے قوم کا جمہوری مُستقبل اپنے عسکری دانتوں سے چبا کر اور اپنے فوجی بُوٹوں سے مسل کر ہمیشہ کے لئے روند ڈالا۔تب سے آج تک پاکستان کی سَر زمین پہ حقیقی جمہوریت کا پودا پروان نہیں چڑھ پایا۔
آنے والے سالوں میں جو بچے جمہورے جمہوریت کا مکھوٹا (ماسک) پہن کر دُنیا کے سامنے آئے بھی تو وہ سب کے سب ایسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں اُگائے گئے تھے جنہیں حسبِ ضرورت گملے والوں نے جب اور جہاں چاہا مُنتقِل کر دیا یا پھر استعمال کر کے مسل دیا۔
یُوں میرے دیس کی جمہوریت تب سے آج تک گملوں میں ہی اُگائی جا رہی ہے اور وطن کی مٹی میں کسی بھی سیاسی پودے کی جڑیں موجود ہی نہیں ہوتی ہیں۔اب تو پاکستانی عوام فوجی نرسری میں سجائی ہوئی "کنٹرولڈ ڈیموکریسی" کو ہی جمہوریت سمجھ بیٹھے ہیں جس کے مالی عسکری حُکام خود ہوتے ہیں اور یُوں کٹھ پُتلی حکومتیں اب پاکستان کہلانے والے ملک میں رواج پا چکی ہیں، اور اِس راہ پہ پہلے پہل ملک کو اسکندر مرزا نے ہی ڈالا تھا کیونکہ وہ بذاتِ خود افسر شاہی اور فوج کی پروُردہ شخصیت تھا، اس لیے ملک کو جمہوریت سے آمریت کی طرف دھکیلنے میں اُس کا کردار اِبتدائی طور پہ اِنتہائی تباہ کُن ثابت ہوا۔
سکندر مرزا کی کوشش تھی کہ وہ صدر کے عہدہ پر ہمیشہ فائز رہے۔ اِس کے لیے اُس نے سیاست دانوں کا تب ایک ایسا گروہ تیار کیا جس نے سازشوں کے تانے بانے تیار کیے، اور سکندر مرزا کے اشاروں پر حکومتیں بنتی اور ٹُوٹتی رہیں، لیکن پھر اُس کے اِقتدار کو بھی آگ لگی گھر کے چراغ سے، اور اپنے ہی یارِ غار فِیلڈ مارشل ایوب خان کے ہاتھوں وہ خود بھی ملک سے جلا وطن کر دیا گیا، اور لندن میں وفات پائی جبکہ ایران میں جا کے دفن ہوا۔
ملک میں پہلا مارشل لاء لگانے اور جنرل ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کا سکندر مرزا نے ایسا جُرم کیا تھا کہ جس کا خمیازہ آج تک ہم بھُگت رہے ہیں، کیونکہ فوج کے مُونہہ کو 1958ء میں سیاسی اِقتدار کا ایسا خُون لگا کہ پھر آنے والے کئی جرنیل لمبے لمبے عرصے تک قوم کا خُون پیتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ایوب خان کا مارشل لاء


»اکتوبر 1958ء میں پاکستان میں اُسی طرح جمہوریت لپیٹ دی گئی جیسے مدینہ کی اسلامی خلافت کو امیرِ مُعاویہ نے ختم کر کے ملُوکِیّت میں بدل دیا تھا۔
»جنرل ایوب خان نے بھی جاتے جاتے اپنا جانشین جنرل یحییٰ خان کو اُسی طرح مقرر کر دیا تھا جیسے امیرِ مُعاویہ نے اپنے بیٹے یزید بِن مُعاویہ بِن ابُوسُفیان کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔

»اور جیسے بنی اُمیّہ نے پیغمبرِ اسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی قائم کردہ اسلامی ریاست کو ہتھیا کر، اسلامی خلافت کو بادشاہت میں بدل کر اِقتدار کو اپنے گھر کی لونڈی بنا لیا تھا، بعینہٖ جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگا کے، اور بعد ازاں اپنا جانشین جنرل یحییٰ خاں کو بنا کے آئندہ کے لئے پاکستانی اِقتدارِ اعلیٰ کا بالواسطہ یا بلاواسطہ مالک پاکستانی فوج کو بنا دیا تھا۔
»جس طرح امیرِ مُعاویہ نے اسلامی ریاست کا اِقتدار اپنے بعد اپنے ناخلف، عیاش، بدکار، زانی، شرابی اور نااہل بیٹے یزید کو سونپ دیا تھا، بالکل اُسی طرح جنرل ایوب خان نے یزید کی سی ہی خصلت رکھنے والے اپنے جانشین جنرل یحییٰ خان کو اسلامی ریاست پاکستان کا کنٹرول تھما دیا تھا۔

»جیسے مُعاویہ بِن ابُوسُفیان، یزید اور بنُو اُمیّہ کے اِقتدار کی بُنیاد اُن کی فوج پر تھی، ویسے ہی جنرل ایوب، یحییٰ اور اُن کے بعد آمر بننے والوں کی طاقت بھی فوج ہی تھی۔

»جیسے بنی اُمیّہ نے پیغمبرِ اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ریاست کا دارالخلافہ مدینہ سے اپنے فوجی ہیڈکوارٹر دمشق میں مُنتقل کر لیا تھا، ویسے ہی جنرل ایوب خان نے قائدِ اعظم رحمتہُ اللّٰہ علیہ کی ریاست کا دارالحکومت کراچی سے ہری پور کے نواح میں، مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں مُنتقل کر کے پاکستانی فوج کے ہیڈکوارٹرز (جی۔ ایچ۔ کیو) کے پنجے کے نیچے دبا دیا جہاں جب جب چاہا، آنے والے جرنیلوں کی ٹرِپّل ٹُو برگیڈ نے شب خون مار کے حکومت پر قبضہ پکّا کر لیا۔
»جیسے بنی اُمیّہ نے اپنے عہد میں جیّد صحابہ اکرام اور عوامُ النّاس میں سے اہل لوگوں کو شریکِ اقتدار بنانے کے بجائے اپنے وفاداروں، جی حضوریوں، اپنے مطلب کے خاندانوں اور من پسند قبائل کو منظُورِ نظر بنا کر اشرافیہ کے درجے پہ فائز کیا تھا، بالکل اُسی طرح جنرل ایوب خان کے دور میں ریاستی معاملات اور اِقتدار میں شراکت کے طور پہ بائیس بڑے بڑے خاندان بہت مضبوط اور مشہور ہوئے تھے، اور یُوں فوج اور اشرافیہ کے گٹھ جوڑ کی داغ بیل پہلے مارشل لاء کے دور میں ایسی پڑی کہ جو بعد میں پاکستانی جرنیلوں کے بہت کام آئی اور آج اُسی فارمولے کے تحت پاکستان میں سِول و مِلٹری بیوروکریسی باہم مِل کے کنٹرولڈ ڈیموکریسی کو جاری رکھے ہوئے ہے جس کے تمام فریق اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں۔
»ووٹ کی پرچی سے بننے والے ملک کو جب بندوق کی نوک سے چلانے کی راہ پر ڈالا گیا تو عوام میں خوف پیدا کرنے اور اِقتدار پر اپنے غیر آئینی تسلّط کو مضبوط کرنے کے لئے فوجی ٹولے نے ظُلم وسِتم، تشدد، مار پیٹ، قید وبند، اغواء، گرفتاریاں، اور مظالم کی اِنتہأ کر کے اُسی طرح بنی اُمیّہ کی پیروی کی جس طرح اُنہوں نے مُسلمانوں سے خلافت چھیننے کے بعد ہر حربے اور ہتھکنڈے کو لوگوں پر آزمایا تھا۔
»مغربی پاکستان کے صوبہ جات؛ سندھ، پنجاب، بلوچستان اور سرحد میں چونکہ جاگیرداری سسٹم، سرداری نظام، قبائلی کلچر اور اشرافیہ کا چلن بہت شدید تھا، لہذا یہاں کے لوگ مشرقی پاکستان کے غریب اور مڈل کلاس جمہور کو اپنے سے کمتر درجے کا خیال کرتے تھے۔ اور جب جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگا کر پاکستانیوں کی اکثریت رکھنے والے بنگالیوں کو اپنی رعایا بنا کر بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنا شروع کیا تو اس سے مشرقی پاکستان میں شدید رنجش، نفرت اور احساسِ محرومی نے جنم لیا جو بالآخر ریاستِ پاکستان سے اُن کی علیحدگی کا سبب بنا۔
»لہذا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد جنرل ایوب خان کے مارشل لاء نے ہی رکھی تھی۔ جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کے دوران تو وہ عمل مکمل ہوا جو ایوبی مارشل لاء سے شروع ہوا تھا۔


وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا


»جیسے واقعہء کربلا اگرچہ باپ کے بعد اُس کے جانشین بیٹے کی ناجائز حکومت کے دور میں پیش آیا تھا، ایسے ہی مشرقی پاکستان اگرچہ جنرل ایوب کے اِقتدار چھوڑ جانے کے بعد پیش آیا لیکن ملک ٹُوٹنے کا سبب ایوب خان کا مارشل لاء اور خود پہلا پاکستانی آمر ہی تھا کیونکہ کربلا تک نوبت بھی یکدم نہیں آگئی تھی بلکہ اُس کا سبب یزید کے والد کی طرف سے خلافت کو ملُوکیّت میں بدلنا ہی قرار پاتا ہے۔

»یزید کی نامزدگی کر کے تو اُس کے باپ نے ایک قسم کی اِنتہأ ہی کر دی تھی جس کے خلاف خانوادۂِ رسول نے علمِ بغاوت بلند کر کے اپنا فرض ادا کیا تھا۔لہذا بنگالیوں کا اصل گناہگار جنرل ایوب خان ہی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یحییٰ خان کا مارشل لاء

جنرل یحییٰ خان ہر لحاظ سے یزِید پلِید کی طرح ثابت ہوا جس نے پاکستانی عوام کی اکثریت (بنگالیوں) کو اِقتدار دینے کے بجائے مغربی پاکستان کے ایک اقلیتی لیڈر کو سِوّل مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کر کے ملک توڑنے کا باضابطہ اِرتکاب کیا۔

یزید نے جیسے حسینیوں پہ مظالم کئے اور پیغمبرِ اسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے خاندان کا قتال اور اہلِ بیت کی بیبیوں کی توہین کی تھی، ویسا ہی کربلا جنرل یحییٰ خان نے پاکستانی اکثریت کے خلاف بنگال میں فوجی آپریشن کر کے کیا تھا، لیکن اس معرکے میں مغربی پاکستان کی فوجوں کو شکست اور جناح کے قائم کردہ پاکستان کی عوام کی اکثریت کو فتح حاصل ہوئی اور اُنہوں نے فوج کی حکمرانی والے پاکستان سے 1971ء میں علیحدگی اختیار کرکے اپنا ایک الگ اسلامی ملک بنگلہ دیش بنا لیا۔

مختصر یہ کہ پاکستان توڑنے کا دوسرا ذمہ دار دوسرا مارشل لاء تھا جبکہ عوامی لیگ سے تقریباً آدھی سیٹیں لینے والا مغربی پاکستان کا فیوڈل لارڈ ذوالفقار علی بھُٹو بھی پاکستان توڑنے کے گناہ میں ایوب اور یحییٰ خان کے ساتھ برابر کا شریک مُجرم تھا۔
بھُٹو پاکستانی عوام کی اکثریت کا نہیں بلکہ قلیل اقلیت کا لیڈر تھا لیکن پاکستان توڑ کر وہ باقی ماندہ پاکستان کا سِوّل مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اُسی طرح بن بیٹھا تھا جیسے یزید کے مرنے کے بعد اُس کا اپنا بیٹا سانحہِ کرب وبلا کرنے والے باپ کی جانشینی کا بوجھ جب سہار نہ سکا تو اُس موقع سے فائدہ اُٹھا کر مَروان بِن حکم اسلامی ریاست کا نیا پردھان بن بیٹھا تھا۔
لہذا یہ اٹل حقیقت ہے کہ اگر 1971ء میں پاکستان نہ ٹُوٹتا اور جنرل یحییٰ خان اِقتدار عوام کے اصل مُنتخب نمائندے شیخ مُجیبُ الرّحمان کو سونپ دیتا تو پھر بھُٹو کبھی پاکستان کا سربراہ نہ بن پاتا۔

بھُٹو دوسرا مَروان بِن حکم تھا جو شیخ مُجیبُ الرّحمان کے علیحدہ ہوتے ہی ادھُورے پاکستان پہ حکمران مقرر ہو گیا۔اور یہ ایک عظیم سانحہ تھا جو دو فوجی آمریتوں کا بھیانک نتیجہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرا سِوّل مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر:


بھُٹو ادھُورے پاکستان کے وزیراعظم کے طور پہ تعریفی کاموں کے لحاظ سے چاہے جتنا بھی جانا یا سراہا جائے لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1947ء میں بننے والے ملک میں پہلے انتخابات جب 1971ء میں کروائے گئے تو پاکستانیوں کی اکثریت نے بھاری اکثریت سے شیخ مُجیبُ الرّحمان صاحب کو اپنا راہنمأ چُنا جن کی سیاسی جماعت عوامی لیگ کو وفاقی اسمبلی میں 160 نشستیں حاصل ہوئیں جبکہ اُس کے مقابل ذوالفقار علی بھُٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی صرف 81 نشستیں حاصل کر سکی۔
یُوں جمہور کا منتخب کردہ پہلا پاکستانی وزیراعظم شیخ مُجیبُ الرّحمان بنتا تھا لیکن بھُٹو جو کہ پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہتا تھا، اور اُس کے مارشل لاء میں مغربی پاکستان کے ایک فیوڈل لارڈ کی حیثیت سے شریکِ اقتدار رہا تھا، نے جنرل یحییٰ خان کو دھمکانا شروع کر دیا کہ اگر فوج نے وزیراعظم بنگال سے مقرر کیا تو وہ اُسے تسلیم نہیں کرے گا۔
جنرل یحییٰ خان نے ڈھاکہ میں نئی منتخب اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تو ذوالفقار علی بھُٹو نے اُس اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا اور اپنی پارٹی کے نو منتخب اراکین کو بھی دھمکی دی کہ اُن میں سے اگر کوئی یحییٰ خان کے طلب کردہ اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے ڈھاکہ گیا تو اُن کی ٹانگیں توڑ دے گا۔

یُوں ذوالفقار علی بھُٹو نے اِنتقالِ اقتدار کا مرحلہ طے نہ ہونے دیا اور پاکستانیوں کی اکثریت کے مُنتخب شُدہ وزیراعظم کو جناح کے بنائے ہوئے پاکستان کا حلف نہ اُٹھانے دیا۔

جرنیلوں نے بھُٹو کے ساتھ مل کے پاکستانی شہریوں کی اکثریت کے خلاف بنگال میں بدترین فوجی آپریشن شروع کر دیا جس میں اُنہیں بدترین شکست ہوئی اور یوں اُس وقت کی سب سے بڑی اسلامی ریاست دو ٹکڑوں میں بٹ گئی جس کا بنگالی وزیراعظم شیخ مُجیبُ الرّحمان بنا جبکہ دوسرے ٹُکڑے کو حریص بھُٹو نے چبا لیا۔
بھُٹو نے جنرل یحییٰ خان کو مُتحدہ پاکستان کا اِقتدار اکثریتی پارٹی کو مُنتقل نہ کرنے دیا تھا لیکن ٹُوٹے ہوئے پاکستان کا اِقتدار جنرل یحییٰ خان سے لے کر خود موجودہ پاکستان کا سِوّل مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گیا۔بھُٹو سیاست میں کسی انتخابی حلقے کے ذریعے نہیں آیا تھا بلکہ پاکستان کے پہلے سِوّل مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سکندر مرزا کا منظورِ نظر بن کر غیر انتخابی دروازے سے پہلے پہل اِقتدار کے دروازے تک پہنچا تھا۔
27 اکتوبر، 1958ء کو سکندر مرزا کو معزول کر کے جب جنرل ایوب خان نے پاکستان کا پہلا فوجی مارشل لاء لگا کر متحدہ پاکستان کا اِقتدار خود ہتھیا لیا تو زُلفی نے اُسے ڈیڈی کہنا شروع کر دیا جس پر پہلے فوجی آمر نے اُسے اپنا بیٹا مان کر اپنی کابینہ میں شامل کر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ مارشل لاء گورنمنٹ کا وزیرِ خارجہ بن گیا۔جنرل ایوب خان کی آمریت کو جب پاکستان کو بنانے والے مرحوم بانی کی بہن فاطمہ جناح نے للکارا تو بھُٹو کو اپنے ڈیڈی کے خلاف قائدِ اعظم کی بہن کی سیاسی جدوجہد بالکل پسند نہ آئی اور اُس نے مادرِ مِلت کے خلاف ہتک آمیز زبان استعمال کرتے ہوئے کہا:

"اِس بُڈّھی نے بیاہ کیوں نہ رچایا؟"

یہ وہ وقت تھا جب بنگال کا پاکستانی سیاستدان شیخ مُجیبُ الرّحمان ڈٹ کے بانئ پاکستان کی بہن اور مادرِ ملت کے ساتھ کھڑا پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی جنگ لڑ رہا تھا جبکہ دوسری طرف زُلفی بھُٹو پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ کا ایک ایسا چہیتا تھا جس کے ضمیر، خمیر میں ہی آمریت موجود تھی۔ لہذا جب وہ ٹُوٹے ہوئے پاکستان کا خودساختہ حکمران بنا تو رعُونت، فرعونیت، تحکم، بالادستی اور اپنی حکمرانی کی نفسیات اُس کے مزاج پہ غالب رہی اور اُس نے جعلی جمہوریت کے نام پر آمرانہ طریقے سے حکومت کر کے اپنے مُخالفین کو دبانا اور اپنے اقتدار کو اپنے پیشرؤوں کی طرح مستحکم کرنا شروع کر دیا۔ حتیٰ کہ پاکستان توڑنے کے بعد 1977ء میں اُس نے نئے انتخابات کروانے کے لئے خواہ مخواہ، اپنی عادت سے مجبور ہو کر، الیکشن میں دھاندلی کروا کے پاکستان قومی اتحاد کے کچھ اُمیدواروں کو ہروا دیا جس کے خلاف عوام میں بھُٹو کے خلاف زبردست ردِعمل پیدا ہوا اور احتجاجی مظاہروں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا جس میں شدت پیدا کرنے کے لئے مذہبی راہنماؤں نے تحریکِ نظامِ مصطفےٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا نعرہ لگا دیا اور یُوں 1971ء میں متحدہ پاکستان کی اکثریت کا مینڈیٹ جھُٹلا کر مغربی پاکستان پہ مُسلط ہونے والا بازیگر ذوالفقار علی بھُٹو 1977ء کی تحریکِ نظامِ مصطفےٰ کے سیلاب میں بہہ گیا، اور اُسی سال پھر 4 اور 5 جولائی کی درمیانی رات کو بھُٹو کا اِقتدار سے ناطہ ایک نئے جنرل ضیأالحق نے ختم کر کے 4 اپریل، 1979ء کو بالآخر اُس کی زندگی کا تماشہ بھی ختم کر کے اگلے لمبے عرصے کے لئے فوج کا ذاتی اِقتدار تیسرے باوردی آمر کے طور پہ پُختہ تر کر لیا۔
پاکستانی اکثریت کا مینڈیٹ چُرا کر خود ادھُورے پاکستان کا لیڈر بننے والا بھُٹو اُسی ادارے کے ہاتھوں ایک المناک اور عبرتناک انجام سے دوچار ہوا جو اُسے سیاست میں لے کر آیا تھا۔ذوالفقار علی بھُٹو سیاست میں انٹری پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سکندر مرزا کی خوشنودی کے سبب ہوئی تھی جبکہ دوسرے ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کو ڈیڈی ڈیڈی کہہ کر وہ مارشل لاء کابینہ میں منسٹر بھرتی ہوا، اور پھر تیسرے ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان کے طفیل ملک توڑ کر وزیراعظم کے منصب تک بھی جا پہنچا۔

بلاشبہ ذوالفقار علی بھُٹو اپنے وقت کے تین آمروں؛ سکندر مرزا، ایوب خان اور یحییٰ خان کا بچہ جمہورا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ضیأالحق کا مارشل لاء

جنرل ضیأالحق جو کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھُٹو کو ہٹا کر 5 جولائی، 1977ء کو برسرِ اقتدار آیا تھا، سب سے لمبے دورانیے تک پاکستان کے موجودہ جغرافیے پر قابض رہا۔اُس کا مارشل لاء پاکستانی قوم کے لئے سخت ترین ثابت ہوا۔اُس نے بھُٹو کی پیپلز پارٹی توڑنے کے لئے وہی کچھ کیا جو کچھ آج عمران خان کی پارٹی کو توڑنے کے لئے بڑی سختی اور بے رحمی کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
چونکہ وہ خود جالندھر کا مہاجر تھا، لہذا اُس نے کراچی اور سندھ سے بھُٹو کا سیاسی اثر ختم کرنے کے لئے وہاں مہاجروں کی لسانی تنظیم "مہاجر قومی موومنٹ" (ایم کیو ایم) پروان چڑھائی جس نے پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ کراچی سے جماعتِ اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان جیسی وفاق پرست اور قدرے معتدل سیاسی جماعتوں کا بھی خاتمہ کر دیا۔لیکن لسانیت کو فروغ دینے کا نقصان یہ ہوا کہ پھر آج تک یہ جِن بوتل میں بند نہیں ہو پایا۔
ضیأالحق نے بھُٹو کو پھاہے لگوا کر گڑھی خدا بخش میں ایسے اہتمام کے ساتھ جا دفنایا تھا کہ جب تک وہ خود جیتا رہا، بھُٹو فیکٹر پاکستان کی سیاست میں لوٹ نہ سکا، تاآنکہ امریکیوں نے اُسے باقی سینئیر فوجی قیادت سمیت آگ سے راکھ کر کے بھُٹو کی بیٹی کو پاکستان کا وزیراعظم بنوایا۔

ضیأالحق کے وارثوں نے اُسے کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے فارمولے کے تحت بیس ماہ ہی حکومت کرنے دی تھی بس، اور پھر بے نظیر کی جگہ میاں شریف کے بیٹے نوازشریف کو ڈپٹی مئیر جیسے اختیارات دے کر نیا وزیراعظم مقرر کر لیا۔

کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا عملی مظاہرہ جنرل ضیأالحق نے تب کیا جب مغرب کے دباؤ پر اُس نے مارشل لاء اُٹھا کے 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کروا تو دئیے لیکن سِندھڑی کے ایک غیر معروف شخص محمد خان جونیجو کو اپنے ماتحت، برائے نام قسم کا وزیراعظم نامزد کیا۔
تب سے اب تک سب کے سب وُزرائے اعظم کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے فارمولے کے تحت بے اختیارے اور نمائشی عہدیدار کے طور پہ اپنے اُوپر بیٹھے سُپر وزیراعظم کی نوکری کرتے ہیں، اور جرنیلوں کا جس اپنے نوکر سے دل بھر جائے، اُسے اِقتدار سے نکال کر کسی نئے بندے کو وہ اپنا نوکر بھرتی کر لیتے ہیں، جیسا کہ عمران خان کی جگہ آج کل شہباز شریف ڈپٹی مئیر لگا ہوا ہے۔

جنرل ضیاء نے ملک کو ایٹمی طاقت تو بنایا لیکن اِس کے لئے اُس نے مغرب اور امریکہ کو تھُک لگایا، اُنہیں سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں لڑایا اور اس لڑائی کے بہانے ایٹمی پلانٹ کے لیے خوب پیسہ کمایا۔
تاہم اس کے بدلے افغانستان آگ وخون میں خوب جلا، پاکستان کی پشتون بیلٹ میں بارود اور کلاشنکوف کلچر کو فروغ اور ملک بھر میں جہادی اور فِرقہ واریت والی جماعتوں کا ظہور ہوا، اور ایم کیو ایم کی طرح یہ جِن بھی اب تک دوبارہ بوتلوں میں بند نہیں ہو پائے کسی سے بھی۔
آج بھی ملک پر جنرل ضیأالحق کی بدرُوح کچھ اِس طرح سے قابض ہے کہ پاکستان میں جمہوریت پہ اُس کا سایہ برقرار ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی زمین پر جمہوریت کا پودا کہیں بھی پروان نہیں چڑھ پاتا۔آپ کو جو جمہوریت نظر آتی ہے، یہ پاکستان کی دھرتی سے اُگی ہوئی نہیں ہوتی بلکہ فوج کی نرسری میں اُگائی ہوئی ملتی ہے۔ یعنی کنٹرولڈ ڈیموکریسی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشرف کا مارشل لاء

‏1999ء میں مشرف کا مارشل لاء اور تب سے اب تک کی کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا عذاب:
فوج کو دکھاوے کی جمہوریت ارینج کر کے رکھنے میں بار بار جو مُشکل پیش آتی ہے، وہ یہ ہے کہ جسے وہ خود کہیں سے اُٹھا کے لاتے اور اپنی نرسری میں پروان چڑھا کے سیاست کا چہرہ بناتے ہیں، کوئی بڑا عہدہ ملتے ہی وہ آپے سے باہر ہونے لگ جاتا ہے اور ھَل مِن مزِید کی طلب میں خود کو بااختیار بنانا یا سمجھنا شروع کر دیتا ہے جیسا کہ بھُٹو نے اپنے ہی ڈیڈی کے خلاف بغاوت کر کے اپنے وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کی تھی اور خود کو قائدِ عوام، قائدِ ایشیأ اور ساری تیسری دنیا (بشمول افریقہ و مسلم دنیا) کا سب سے بڑا راہنمأ خیال کر لیا تھا۔ حالانکہ سیاست میں بھُٹو کی انٹری کسی جمہوری جدوجہد سے نہیں بلکہ سکندر مرزا کی ایرانی بیوی ناہید مرزا کی بدولت ہوئی تھی جس کی ایرانی نژاد سہیلی نُصرت اصفہانی سے بھُٹو نے شادی کر لی تھی، اور یُوں ناہید مرزا نے اپنے خاوند سے کہہ کے اپنی سہیلی کے خاوند کو اِقتدار کی چوکھٹ پہ بٹھا دیا تھا۔
ضیأالحق نے اسی لئے بھٹو کو بڑے آرام کے ساتھ ٹھکانے لگا دیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ بھُٹو اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ فوج کی نرسری سے ہی سیاست میں آیا تھا۔

جب ضیأالحق نے خود بظاہر ایک مسکین سے سندھی کو وزیراعظم بنایا تو عالمی سطح کی اُڑان بھرتے ہی محمد خان جونیجو نے خود کو پاکستان کا بااختیار وزیراعظم سمجھ لیا اور عالمی طاقتوں کے بہکاوے میں آکے، صدر جنرل ضیأالحق کو بےخبر رکھ کر جنیوا معاہدے پر دستخط کر دئیے جس سے افغان جنگ کا خاتمہ اور سوویت یونین کی فوجوں کو افغانستان سے بحفاظت نکل جانے کا موقع دیا گیا جبکہ جنرل ضیأالحق پاکستان کے مُفاد میں فی الحال افغان جنگ مزید کچھ عرصہ جاری رکھنا چاہتے تھے۔
لہذا اپنی اوقات سے باہر نکلنے پر جنرل ضیأالحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کر کے نئے الیکشن کا اعلان کر دیا۔نئے الیکشن تو ہوئے لیکن جنرل ضیأالحق کی موت کے بعد اور 1988ء میں جہاز حادثے سے زندہ بچ جانے والے موسٹ سینئر جنرل اسلم بیگ پر دباؤ ڈال کر امریکہ نے بینظیر بھٹو کو وزیراعظم بنوا دیا۔
آرمی نے چاروناچار بے نظیر کی سربراہی مان تو لی لیکن بیس ماہ بعد ہی آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر کی حکومت برطرف کرکے میاں نواز شریف کو اپنا مُعتمدِ خاص بنا لیا کیونکہ وہ بھی کبھی جنرل ضیأالحق کی اُسی طرح کی روحانی و سیاسی اولاد ہوا کرتا تھا جیسے کبھی بھُٹو جنرل ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتا تھا۔
لیکن جب نوازشریف نے بھی بھُٹو بننے کی کوشش کی تو وہ بھی راندہ گیا۔ حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں اُسے جلاوطن کرکے ایک لمبی مدت کے لئے جب حکومت خود سنبھال لی تو اس کے پیچھے بھی کہانی وہی تھی کہ نوازشریف اُن کی نظر میں خود سر ہو چکا تھا۔
اِس موضوع پر میں پہلے سے ہی اپنے کالموں میں بہت تفصیل کے ساتھ بتا چکا ہوں کہ کیسے نوازشریف اور ایسٹیبلشمنٹ کے مابین خارجہ امور، ہندوستان کے ساتھ تعلقات اور مسئلہ کشمیر کے لچکدار حل کے معاملات پر اختلافات پیدا ہوئے تو نوازشریف نے فوج کو خاطر میں نہ لانے کے لئے پے در پے آرمی چیف تبدیل کئے۔
نتیجہ کارگل کی مُہم جوئی اور ایک نئے مارشل لاء کی صورت میں سامنے آیا، اور فوج نے اپنا آپ منوا کے رکھا کہ پاکستانی اِقتدارِ اعلیٰ کے اصل مالک وہی ہیں۔

اصل میں فوج کسی فرد کا نام نہیں بلکہ ادارے کا ملک کے تمام معاملات پر مکمل کنٹرول ایک مستقل پالیسی کے طور پہ موجود ہے۔
پرویز مشرف نے ظفراللہ جمالی صاحب کو ثوابِ دارین کے طور پہ وزیراعظم لگایا تاکہ وہ سیدھے سادے درویش آدمی کی طرح ہر کام جنرل سے پوچھ کر کریں گے، لیکن جب وہ امریکہ کے دورے پر گئے تو اُنہوں نے امریکیوں سے کہا کہ ملک کا پردھان منتری (آئینی اختیارات کا مالک) چونکہ میں ہوں، لہذا آپ میرے ملک کے معاملات میری فوج کے ساتھ نہیں بلکہ میرے ساتھ براہِ راست طے کیا کریں۔
یہ بات جب جنرل پرویز مشرف کو پتہ چلی تو اُنہوں نے فوراً جمالی کو ہٹا کر تین مہینے کے لئے چودھری شجاعت کو نوکر بھرتی کیا اور پھر شوکت عزیز کو یہ عہدہ دے دیا، جس نے سر جھُکا کے خود کو صرف انتظامی معاملات تک محدود رکھا اور بھٹو، جونیجو، نوازشریف یا جمالی بننے کی کوشش ہی نہ کی۔
ہماری ایسٹبلشمنٹ کو ہیرو یا بااختیار بننے والا کوئی وزیراعظم چاہئیے ہی نہیں کیونکہ کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے فارمولے کے تحت اُنہوں نے دنیا کو کسی نہ کسی وزیراعظم کا چہرہ تو دکھانا ہوتا ہے لیکن ملکی معاملات خود ہی چلانے ہوتے ہیں۔ اور یہ طے شدہ اصول ہے جس پہ جنرل ایوب، یحییٰ، ضیاء اور پرویز مشرف کا ادارہ اُن کے بعد بھی کوئی کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں۔
نوازشریف اور زرداری نے امریکہ، مغرب اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کو قائل کر کے اگرچہ وردی اُتار چکے پرویز مشرف سے جان چھُڑا لی تھی اور نوازشریف ایک بار پھر اقتدار میں واپس آ بھی گیا تھا، لیکن نتیجہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات، اور جب ایک بار پھر اُسے راج گدی سے اُتارا گیا تو اُس نے چیخنا، چلانا شروع کر دیا کہ "مُجھے کیوں نکالا؟"
اُس کے اِس چیخ چہاڑے پہ اُنہوں نے اُسے پہلے جیل میں پھینکا اور پھر اُٹھا کے مُلک سے ہی باہر پھینک دیا۔ تب سے وہ آزاد دنیا میں سانس تو لے رہا ہے لیکن مُلک میں آ نہیں پایا۔نوازشریف اور زرداری کا مُتبادل تلاش کرتے کرتے ایسٹیبلشمنٹ کی نظر اکیلی سیٹ والے ایک بُوڑھے شخص عمران خان پہ جا پڑی جو ایک معروف کھلاڑی تھا اور جسے پورا پاکستان جانتا تھا، باہر کی دنیا میں بھی اُس کی پہچان تھی، بنیاد پرست یا کوئی مولوی بھی نہیں تھا بلکہ چنگا بھلا لبرل قسم کا سیاستدان تھا۔

لہذا جنرل پاشا نے اگلی مُدت کے لئے اُس کا انتخاب کیا، اور نوازشریف و زرداری کے متبادل اُسے پروموٹ کرنے کے لئے مینارِ پاکستان لاہور پہ اُس کا ایک بہت کامیاب جلسہ کروایا، پھر اُس سے دھرنے دلوائے، پھر دوسری جماعتوں کے بندے توڑ توڑ کر اُس کے ساتھ ملائے اور پھر بالآخر 2018ء میں اُسے بھی ڈپٹی مئیر لگا لیا۔شروع میں تو سب ٹھیک تھا لیکن پھر عمران خان کے ذہن میں بھی یہ خیال سما گیا کہ وہ پاکستانی عوام کا سیاسی دیوتا ہے جس کے ایک اشارے پر ملک کے کونے کونے سے لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور اوورسیز پاکستانی بھی اُس کے پرستار ہیں۔ لہذا وہ اتنا بے اختیار کیوں ہے اور اُس کے اُوپر ایک سُپر وزیراعظم کیوں بیٹھا ہوا ہے؟
بااختیار ہونے اور قوم کا حقیقی لیڈر بننے کا یہ وہی ارمان تھا جس کی پاداش میں عمران خان کو بھی پہلے تمام وُزرائے اعظم کی طرح وقت سے پہلے ہی اِقتدار سے بیدخل ہونا پڑ گیا۔جیسے نوازشریف ہر بار بھُول جاتا ہے کہ جب وہ بے روزگار تھا تو اُس کے والد میاں شریف نے جنرل جیلانی سے کہہ کر اُسے جنرل ضیأالحق تک بھجوایا تھا تو تب اُسے بغیر کسی اسمبلی کا الیکشن لڑے ایک جرنیل نے پنجاب کی کابینہ میں بھرتی کروا دیا تھا جس کے بعد ہی وہ وزارتِ عظمیٰ کے پَد پر پہنچ پایا تھا، ایسے ہی عمران خان بھی یہ بھُول گیا تھا کہ اُس کو پروان جنرل پاشا نے چڑھایا اور ایسٹیبلشمنٹ نے ہی اُسے وزیراعظم بنوایا تھا، لہذا اُن کے کہے سے باہر ہونے کا مطلب اِقتدار سے باہر ہونا یقینی ہوتا ہے کیونکہ کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا یہ جنرل ایوب اور جنرل ضیأالحق کے زمانے سے ایک سخت اصول اور سیٹ اپ چلا آ رہا ہے۔
لیکن چونکہ عمران خان نے ایسٹیبلشمنٹ کے سامنے اپنے نکالے جانے پر مزاحمت کی ہے، اور اُلٹا وہ اپنے پالنے والوں پہ میاؤں میاؤں بھی کر رہا ہے، بلکہ باقاعدہ اُن پہ غُرا بھی رہا ہے، تو اب وہ اس کے نتائج بھی بُری طرح بھُگت رہا ہے۔ اور بقول حامد میر: "عمران خان پر ابھی مزید عذاب اِس قدر شدید طریقے سے نازل ہونے کو ہے کہ لوگ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کو بھول جائیں گے۔"
دوسرے لفظوں میں ملک میں اِس وقت بھی پسِ پردہ سخت ترین مارشل لاء لگا ہوا ہے جو شدت میں جنرل ضیاء کی باوردی آمریت سے بھی زیادہ بُرا ہے۔ اور جس پتھر کے صنم کو جی ایچ کیو والوں نے اپنے ہاتھوں سے تراش کر بھگوان بنایا تھا، آج وہی عمران خان جب بضِد ہے کہ وہ پاکستانی قوم کا حقیقی لیڈر، جمہوریت کا چیمپیئن اور ملک کا مستقبل ہے تو پھر حافظ صاحب نے کُلہاڑا اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اپنے پیشرو کے بنائے ہوئے آذری بُت کو پاش پاش کر دیا ہے تاکہ عمران خان صاحب کے دماغ سے یہ خنّاس نکل جائے کہ وفاق، پنجاب، خیبرپختونخواہ، آزاد کشمیر اور گلگت وبلتستان میں حکومتیں انہوں نے اپنے بل بوتے پر بنا لی تھیں۔
اب عمران خان پھر سے وہی کچھ ہے جہاں سے کبھی ایسٹیبلشمنٹ نے اُسے اُٹھایا تھا۔
اور اگلے الیکشن میں عمران خان صاحب اقتدار تو دور کی بات، شائد قومی اسمبلی کے ممبر بھی نہ بن پائیں۔ کیونکہ نرسری والے جب کسی کو کسی عہدے پہ بٹھاتے ہیں تو پھر اُس بلی کو خود پر میاؤں، میاؤں ہرگز نہیں کرنے دیتے جیسا کہ بھُٹو نے کیا، نوازشریف کرتا رہتا ہے یا پھر اب عمران خان کر رہا ہے۔ہم نے بار بار دیکھا کہ خود پہ غُرانے والے احسان فراموش کو وہ ٹھکانے لگانا بھی جانتے ہیں۔

پاکستان آرمی جسے اپنی نرسری میں اُگاتی ہے، اُسے اپنے ٹائم فریم کے مطابق جہاں اُس کا اپنا ڈیزائن اور پلان ہوتا ہے، ویسے ہی اُس گملے کو سجاتی ہے۔ اور اِس معاملے میں پودے کی کوئی مرضی نہیں دیکھی جاتی بلکہ مالی کی پسند، ناپسند اور ضرورت پہ سب کچھ منحصر ہوتا ہے۔
لیکن جب کوئی اُن کے ہاتھوں کا تراشا ہوا پتھر بھُٹو، نوازشریف یا پھر عمران خان کی طرح بُت خانے میں بھگوان بن بیٹھے تو پھر اُسے تراشنے والے اُس کی پُوجا کسی کو نہیں کرنے دیتے بلکہ اپنی بنائی ہوئی مُورت کو اپنے ہاتھوں وہ توڑ ڈالتے ہیں، جیسا کہ آجکل عمران خان کو توڑا جا رہا ہے۔
در اصل سیاستدانوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ آتے تو کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے تحت ہیں لیکن جرنیلوں کا بھرتی کیا ہوا عہدیدار بننے کے کچھ عرصے بعد ہی وہ بااختیار، خُودسر اور اصل حاکم بننا شروع کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ زیرِ عتاب آتے ہیں جیسا کہ آج کل عمران خان صاحب آئے ہوئے ہیں۔
جیسے یکدم عمران خان صاحب انہوں نے وفاق، پنجاب، خیبرپختونخواہ، گلگت وبلتستان اور آزاد کشمیر میں ایک بھرپور اقتدار سے نوازا تھا، ویسے ہی اب اُنہوں نے خان صاحب سے سارے کا سارا اقتدار واپس بھی لے لیا ہے تاکہ اُنہیں باور کروایا جا سکے کہ آپ ہمارے دم سے تھے اور اپنے طور پہ ایک کھلاڑی کے سوا کچھ نہیں ہو۔
خیر، پاکستان میں کوئی وردی والا خود سامنے آکے حکومت کرے یا پسِ پردہ رہ کے کٹھ پُتلیاں نچاتا رہے، اصل حاکم وہی ہیں جو نرسری لگاتے اور کسی گملے میں پھُول سجاتے ہیں۔

پھول کی عمر قدرتی طور پہ کم ہی ہوتی ہے، جبکہ مالی کی عمر پچہتر سال ہونے کے باوجود بھی صحت قابلِ رشک ہے۔
یہ مذکورہ بالا کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا پھندہ ہمارے گلے میں سکندر مرزا ڈال کے گیا تھا لیکن جنرل ایوب خان نے یہ پھندہ اپنے ہاتھ میں لے لیا، جبکہ جنرل ضیأالحق نے یہ پھندہ بھُٹو کے گلے میں ہی نہیں ڈال کے اُس کی جان لی تھی بلکہ ہمیشہ کے لئے پوری قوم کی گردن پہ وہ اتنا کس کے گیا ہے کہ اب کسی اکیلے عمران خان یا چند ایک سیاستدانوں کے بس کی بات ہی نہیں ہے کہ وہ قوم کی گردن کے گرد لپٹے ہوئے اِس جان لیوا رسے کو اُتار پھینکیں کیونکہ ایسی کوشش کرنے والا فوراً عبرتناک مثال بنا دیا جاتا ہے، اور اب تو اُن کے اِنتقام کے شکار صحافی، اینکر، رائٹر، کالم نگار اور سوشل میڈیا کے بیدار مغز جوان بھی ہو رہے ہیں، اور عین ممکن ہے کہ حق مانگنے یا کنٹرولڈ ڈیموکریسی سے جان جان چھُڑانے کی ترغیب دینے کے جُرم میں خود میں بھی کہں رگڑا ہی نہ جاؤں۔

نثار تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچوں پر مظالم، مِسنگ پرسنز، 2018ء میں ن لیگ کی حکومت ختم کرکے عمران خان کو حکومت میں لانا، اور پھر 2022ء میں اُسے بھی کِک آؤٹ کر کے بھُٹو-زرداری خاندان، میاں شریف کے خاندان اور مُفتی محمود کے خاندان کی مُشترکہ حکومت میاں شریف کے دوسرے بیٹے شہباز شریف کی چئیرمینی میں بنوانا، اور اب پی ٹی آئی کا حشر نشر کر کے آئندہ کی کوئی کمزور حکومت اپنے کسی نئے ڈیزائن سے بنانے کے لئے ماحول تیار کرنا، ایسی باتیں ہیں کہ جن پر سوال اُٹھانے والا بھی جیل جا سکتا ہے یا پھر جان سے ہی جا سکتا ہے۔ حالانکہ اب معاشرے میں کھُل کے لوگ نڈر ہو کے کہہ رہے ہیں کہ یہ سب غلط ہے، غلط تھا اور آئندہ بھی کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا سیٹ اپ غلط ہوگا کیونکہ یہی بے جا مداخلت پاکستان کی بدحالی کی اصل وجہ ہے۔
اُن کی اِس مداخلت کا پنجہ صرف سیاست پر نہیں، بلکہ عدالت، صحافت، محکموں، معشیت، زراعت، کاروبار اور ہر چیز پر ہے جس کی وجہ سے پورا ملک اور معاشرہ تباہ ہو چکا ہے۔

اب اگر ہم نے بھی ترقی کرنی اور تہذیب سیکھنی ہے تو پھر ہمیں اِس غیرآئینی مداخلت کا خاتمہ کرنے کے لئے مِن حیثُ القوم جدوجہد کرنی ہوگی پلیز۔
اگرچہ اِس مداخلت کو ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ دُنیا کی کئی قوموں نے بڑی بڑی جابر آمریتوں سے بالآخر آزادی حاصل کی ہے، تاہم اِس کے لئے قُربانیاں دینی پڑتی ہیں، اور اگر بالفرض مُجھے اپنی قوم کی حقیقی آزادی، جمہوریت اور کنٹرولڈ ڈیموکریسی سے نجات کے لئے اپنی جان کی بھی قربانی دینی پڑی تو میں گُریز نہیں کروں گا۔

جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے،
یہ جاں تو آنی جانی ہے، اِس جاں کی تو کوئی بات نہیں۔
(فیض احمد فیض)

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھُلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
(پروین شاکر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے...

ما را در سایت ہسپتالوں کی حالت زار، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے دنبال می کنید

برچسب : نویسنده : 6voiceofnation7 بازدید : 53 تاريخ : يکشنبه 1 مرداد 1402 ساعت: 5:15